نبی کی ضرورت

قرآن و احادیث سے واضح ہے کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور امت مسلمہ میں سے نبی آسکتا ہے  اور یہ بھی کہ آنے والا مسیح  کا آخری وقت میں ظہور ہوگا ۔کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ امت مسلہ کو نبی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ سوال بذات خود ایک نہایت ہی احمقانہ سوال ہے کیونکہ آنے والے کے مسیح کے بارے میں خود آنحضرت ﷺ نے نبی ہونے کی بشارت دی ہے ۔اللہ تعالی ٰ نے ہمیں بے شمارایسے نشان دیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو امام مہدی ؑ کا زمانہ یقیناً نبی کی ضرورت کوپکار رہا تھا ۔قرآن و احادیث کی روشنی سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو امام مہدی ؑ بلکل ایسے وقت میں نبی ہو کر آئے جب زمانہ نبی کی آمد کا بڑی شدت سے منتظر تھا ۔

نبی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب لوگ ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں اور آنحضرتﷺ نے یہ واضح طور پر آگاہ کیا  تھا کہ امت مسلمہ پر بھی یہ وقت آئے گا اور یہ کہ اس وقت اللہ تعالی اپنے نبی کو اسلام کی احیاء نو کے لئے مبعوث کرے گا ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۴۲

لوگوں نے جو اپنے ہاتھوں بدیاں کمائیں ان کے نتیجہ میں فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تَری پر بھی تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے تاکہ شاید وہ رجوع کریں۔   (سورة الروم آیت ۴۲)

حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں ۔زمین بلکل مر چکی ہے ۔یہ زمانہ ظھر الفساد فی البرّ و البحر کا ہوگیا ہے۔جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں ۔جنگل سے مرادمشرک لوگ  اور بحر سے مراد اہل کتاب ہیں ۔جاہل و عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھودنیا کی حالت بدل گئی ہے ۔روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اسکی تاثیریں نظر آتی ہیں اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔خدا پرستی اور خدا شناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے اس لئے اس وقت ضرورت ہےکہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو رو شنی بخشے ۔خدا تعالی ٰ کا شکر کرو ۔اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کونازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔  (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲مورخہ ۳۱مارچ ۱۹۰۳صفحہ ۲)

آنحضرت محمدﷺاس وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب مسلمان ہدایت سےمکمل طور پر  گمراہ ہو چکے ہوں گے :

"عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”يوشك أن أو سيأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه، مساجدهم يومئذ عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء، منهم أو من عندهم خرجت أو تخرج أو يمدح الفتنة وفيهم تعود”

حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے کہ : لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والاہے کہ جب اسلام محض نام کا رہ جائے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا۔ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے بالکل خالی ہوں گی،  ان کے علماء آسمان تلے بدترین مخلوق ہوں گے، ان کے پاس سے فتنہ ظاہر ہو گا اور انہی میں لوٹ جائے گا ۔‘‘(مشکوة کتاب العلم)

آنحضرت محمدﷺ مزید امت مسلمہ  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ الإِفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ‏”‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ‏.

حضرت  عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری امت کے ساتھ ہو بہووہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرئیل کے ساتھ پیش آچکی ہے ۔یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگراپنی ماں  کے اعلانیہ زناکیا ہوگا تو میری امت  میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل کا مرتکب ہوگا ،بنی اسرائیل 72فرقوں میں بٹ گئے ‏اور میری امت 73فرقوں میں بٹ جائے گی ،اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سب  جہنم میں جائیں گے ،صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! یہ کون سی جماعت ہو گی ؟آپؐ نے فرمایا:یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے ۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 2641)

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرتؐ نے ہمیں ایسی حالت میں تنہا نہیں چھوڑا بلکہ آپؐ نے امت مسلمہ کی اس بد ترین حالت کا علاج بھی خود ہی بتا یا ہے ، اوروہ یہ ہے کہ  آنحضرت محمد ﷺ نے ایک ایسے مصلح کی بشارت کی ہے جو اسلام کا احیاء نو کرے گا ۔آپؐ نے  یہ واضح کیا کہ یہ مصلح حضرت سلیمانؓ فارسی کے نسب میں سے ہوگا ، جس سے پتا چلاکہ وہ مصلح جسکی آنحضرت محمدﷺ نے بشارت دی وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ مسیح موعود و امام مہدی  ہی ہیں کیونکہ آپ بھی اسی نسب یعنی اہل فارس سے ہی ہیں ۔آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رضى الله عنه قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ ‏{‏وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ‏}‏ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلاَثًا، وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ ـ أَوْ رَجُلٌ ـ مِنْ هَؤُلاَءِ ‏”‏‏.‏

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سورہ جمعہ نازل ہوئی تو ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے یہ آیت پڑھی(ترجمہ): ’’ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملےمیں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس آیت کا مصداق کون لوگ ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا، اس وقت ہم لوگوں میں حضرت سلمان فارسی ؓ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھ کر فرمایا: ’’اگر ایمان ثریا ستارے کی بلندی پر بھی ہوتا تو (ان میں سے) کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے اور ایمان کو وہاں سے حاصل کرتے یا (فرمایا: ) ان میں سے ایک آدمی وہاں تک پہنچ جاتا۔‘‘

(صحیح بخاری جلد 6کتاب 60حدیث نمبر 4897)

غیر احمدی خود بھی ایک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں اور اسکے آنے کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتے ، جیسا کہ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ نے اس کے آنے کی خبر بھی دی تھی ۔اگر کوئی کہے کہ آنحضرتؐ آخری نبی ہیں اور انکے بعد کوئی بھی نبی نہیں آسکتا تو وہ پھرآنحضرت ؐ کی آنے والے نبی کے بارے میں پیشگوئیوں کا کیا کرے گا ؟ دراصل  آنحضرت محمد ﷺ آخری  شرعی نبی ہیں اور اسی کا حضور ؐ نے دعویٰ بھی کیا ۔حضرت محمدﷺ نے ہمیں یہ تاکید کی کہ آنے والے نبی کو قبول کرو اسکو مانو چاہے تمہیں برف کے پہاڑ سے رینگتا ہوا  اس تک جانا پڑے ۔انبیاء تب بیجھے جاتے ہیں جب لوگ ہدایت سے گمراہ ہو چکے ہوتے ہیں ۔کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ نبی کی ضرورت تو ہے مگر نبوت کا دروازہ  ہمیشہ کے لئے بند ہے ؟
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر قرآن میں بتایا ہے کہ جب لوگ ہدایت سے گمراہ ہو چکے ہوتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالی ٰ انکی اصلاح کے لئے نبی کو مبعوث کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :

وَلَقَدۡ ضَلَّ قَبۡلَہُمۡ اَکۡثَرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾ وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا فِیۡہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ ﴿۷۳﴾

ترجمہ: اور یقیناً ان سے قبل پہلی قوموں  میں سے بھی گمراہ ہو چکے تھے ۔جبکہ یقیناً  ہم ان میں ڈرانے والے بھیج چکے تھے ۔ (سورة الصٰفات آیات 72تا73)

آنحضرت ؐ  آخری شرعی نبی ہیں  اور آپؐ کا بھی یہی دعویٰ تھا اور یہ کہ آپکی ؐ کامل اتباع میں نبی آسکتا ہے   اور ایک نبی جسکی ضمانت دی گئی وہ آخری زمانے کا مسیح ہے ۔

اللہ تعالی ٰ نے مزیدنبی کی ضرورت کے حوالے سے نشان دئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَکُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ 

ترجمہ: اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پا جاؤ۔ (سورة آل عمران آیت 104)

اللہ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ آپس میں متحد ہو جاوٴاور تفرقہ میں نہ پڑولیکن جب ہم امت مسلمہ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ  یہ تفرقہ میں بٹ چکے ہیں ۔ صرف ایک ہی جماعت ہے جو خلافت کے سائے تلے متحد ہے جیساکہ آنحضرتؐ نے بھی بشارت دی تھی  اور وہ جماعت جماعت احمدیہ ہے ۔حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، يَقُولُ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ ‏”‏ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْىٍ، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ ‏”‏ نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا ‏”‏‏.‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا‏.‏ قَالَ ‏”‏ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ قَالَ ‏”‏ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ ‏”‏‏.‏ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ قَالَ ‏”‏ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ، وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ ‏”‏‏.‏

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘انہوں نے کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابن جابر نے بیان کیا ‘ ان سے بسر بن عبیداللہ الخصرمی نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابو ادریس خولانی سے سنا ‘ انہوں نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے سنا ‘انہوں نے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا ۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ میں نے پوچھا کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن اس خیر میں کمزوری ہو گی ۔ میں نے پوچھا کہ کمزوری کیا ہو گی ؟ فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ‘ ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے ۔ میں نے پوچھا کیا پھر دور خیر کے بعد دور شر آئے گا ؟ فرمایا کہ ہاں جہنم کی طرف سے بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے ‘ جو ان کی بات مان لے گا وہ اس میں انہیں جھٹک دیں گے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! ان کی کچھ صفت بیان کیجئے ۔ فرمایا کہ وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان عربی بولیں گے ۔ میں نے پوچھا پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا ۔ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو ؟ فرمایا کہ پھر ان تمام لوگوں سے الگ ہو کر خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے ۔ (صحیح البخاری  جلد 9کتاب 88حدیث نمبر 206)

یہ حدیث خود بتا رہی ہے  کہ امام کے بغیر زندگی بے کار زندگی ہے۔یہ ٖ غیر احمدی مسلمانوں  کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کا  انکار کیا اور ایک امام  کے بغیر بے کار زندگی گزار  رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :

وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿106﴾ۙ

ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جو الگ الگ ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کیا۔ بعد اس کے کہ اُن کے پاس کھلے کھلے نشانات آچکے تھے۔ اور یہی ہیں وہ جن کے لئے بڑا عذاب (مقدر) ہے۔ (سورة آل عمران آیت 106)

صرف ایک ہی صورت ہے کہ کہ حقیقی مومن متحد رہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ آنے والے نبی کو  مانیں۔اللہ مومنین کو بے یارو مدگار نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لئے اس نے اپنے نبی یعنی حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ؑ مسیح موعود و امام مہدی کو اسلام کی احیاء نو اوراس جماعت کو بنانے کے لئے بیجھا جس کی بشارت خود آنحضرتﷺ نے دی تھی ۔اللہ آخر کیوں مسلمانوں کو ظلمت میں چھوڑتا جبکہ خود اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہےکہ :

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿258﴾

ترجمہ: اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں۔ وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ (سورة البقرہ آیت 258)

اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ مومنین کا دوست ہے اور وہ مومنین کو گمراہی سے ہدایت کی طرف نکالتا رہے گا ۔ اس لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اس امت کو گمراہی میں پڑا رہنے دے ۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿10﴾

ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندے پر روشن آیات اُتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لے جائے اور یقیناً اللہ تم پر بہت مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (سورةالحدید آیت 10)

اللہ نے یہاں بتا یا ہے کہ وہ کیسے لوگوں  کو تاریکی سے نور  میں نکالتا ہے ۔اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہےکہ وہ اپنے بندے پر روشن نشانات اتارتا ہے جن کی بدولت وہ اندھیروں سے نور کی طرف نکالے جاتے ہیں ۔

پس یہ واضح ہوا  کہ اسلام کو نبی کی ضرورت ہے اور وہ زمانہ جس کے بارے میں آنحضرتؐ نے آنے والے مسیح کی بشارت دی  تھی وہ زمانہ 14 صدی کا زمانہ تھا اور پیشگوئی مکمل ہو چکی ہے ۔اللہ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کو مبعوث کیا جن میں آنے والے نبی کے تمام نشانات پورے ہوئے اور انہوں اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی۔